اس موسم میں کون سا رنگ پہنیں – خواتین کے ملبوسات

غلام زہرا
خواتین اکثر اس الجھن میں مبتلا نظر آتی ہیں کہ وہ کس رنگ کے کپڑے پہنیں۔جس طرح آج کیا پکائیں کی الجھن ہے۔اسی طرح لباس کا معاملہ بھی ہے ۔اور واقعی یہ تھوڑا مشکل سا امر ہے اور اس صورت میں تو اور بھی مشکل ہو جاتا ہے جب سامنے ڈھیر سارے کپڑے رکھے ہوں اور ان میں سے کسی ایک اور اچھے سے رنگ کے لباس کا انتخاب کرنا پڑ جائے۔سمجھ دار اور باذوق خواتین اپنی اس الجھن کو بڑی نفاست سے خود ہی سلجھاتے ہوئے اپنے لئے کسی نہ کسی طرح مناسب رنگ منتخب کر ہی لیتی ہیں،لیکن بعض ایسی بھی خواتین ہیں جو اپنے لباس کے بارے میں عجیب سے مخمصے کا شکار نظر آتی ہیں۔وہ کسی ایک رنگ کو اپنے لئے مخصوص کر لیتی ہیں،اگر ڈارک بلیو رنگ پسند ہے تو بس ہر لباس میں ڈارک بلیو رنگ ہی ڈھونڈتی ہیں۔شاپنگ پر بھی جانا ہو تو اچھے اچھے رنگوں کے باوجود اپنے پسندیدہ رنگ کے لئے پریشان ہو جاتی ہیں ۔ان کی کزنز،فرینڈ وغیرہ جو ان کی اس عادت سے واقف ہوتی ہیں،کسی خوشی کے موقع پر انہیں لباس کا تحفہ دیتے ہوئے جھجک محسوس کرتی ہیں۔ہر وقت خود پر ایک ہی رنگ طاری کر لینا بعض اوقات ایک نفسیاتی عمل لگتا ہے۔ازرہ کرم اپنی اس عادت سے پیچھا چھڑائیے۔

کسی ایک رنگ کو اپنے لئے خاص مت کیجیے۔آپ یہ ضرور دیکھیں کہ آپ پر کس رنگ کا لباس زیادہ اچھا لگ رہا ہے۔لیکن اس بات پر بھی دھیان دیجیے کہ آپ کے مقابل آنے والی کوئی بھی خاتون آپ کو اس رنگ کے لباس میں دیکھ کر کیا رائے رکھتی ہے۔اگر مقابل کی نگاہ میں ستائش ہے تو یہ اچھی بات ہے،لیکن اگر وہ آپ کے پسندیدہ رنگ کے بارے میں ناپسندیدگی کا اظہار کرے تو پھر دیگر خواتین کی رائے بھی لیجیے،اگر سب کی رائے ایک جیسی ہے تو آپ اس رنگ کے لباس پہننا ترک کر دیں ،کیونکہ”پہنیے جگ بھاتا اور کھائیے من بھاتا“کے نسخے پر عمل کرنا بھی کبھی ضروری ہو جاتا ہے۔ لباس کے رنگ کا انتخاب دوسروں کی پسند کے ساتھ ساتھ اپنی جسامت،چہرے کی رنگت،فٹنس اور اپنی عمر کے لحاظ سے کیجیے۔ ہلکے سانولے چہرے اور پرکشش نقوش والی خواتین پر ہر طرح کے لباس کا رنگ کھل جاتاہے،پھر چاہے ان کی جسامت اور عمر کتنی بھی ہو۔ ان کو لباس کے رنگوں کا انتخاب کرتے ہوئے زیادہ دقت نہیں اٹھانی پڑتی لیکن یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ ہر خاتون پر ہر رنگ نہیں سج سکتا، اگر آپ گہرے سانولے چہرے والی خاتون ہیں تو شوخ رنگوں کے کپڑے پہننے کی بجائے ہلکے رنگوں والے کپڑے منتخب کیجیے۔ بھاری جسامت والی خواتین اپنے چہرے کی رنگت کے مطابق ہر طرح کے رنگ پہن سکتی ہیں،لیکن انہیں یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ ایسے کپڑے نہ پہنیں جو ان کے جسم کو مزید نمایاں کریں۔لمبی پتلی اور گورے چہرے والی لڑکیوں کو تیز گہرے اور شوخ رنگوں کے لباس سوٹ کرتے ہیں،یہ اگر ہلکے رنگ کے کپڑے پہنیں تو دیکھنے والوں کی نگاہ میں اچھا تاثر نہیں ابھرتا۔ بڑی عمر کی خواتین کو بھڑ کیلے اور گہرے رنگ کے لباس پہننے سے گریز کرنا چاہیے۔تیز رنگ کے لباس پہننے سے ان کے ساتھ ”بوڑھی گھوڑی لال لگام“والا معاملہ ہو جاتا ہے۔درمیانی عمر کی خواتین رنگوں کا انتخاب کرتے وقت موسم کو پیش نظر بھی رکھ سکتی ہیں۔سردی ہے تو آپ تیز رنگوں کے لباس زیب تن کریں،لیکن اگر گرمی کا موسم ہے تو ہلکے اور لائٹ رنگوں کے لباس مناسب ہوں گے۔ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ وہ رنگ آپ کی شخصیت کے عین مطابق لگے۔ شادی بیاہ کی تقاریب دوپہر میں ہیں تو ہلکے رنگوں کے لباس پہنیے،البتہ رات کی تقاریب میں آپ اپنی پسند کا رنگ چوز کر سکتی ہیں،لیکن پھر آپ میک اپ اس طرح کریں کہ چہرہ لباس کے رنگ کے ہم آہنگ رہے۔چھوٹی بچیوں کو آپ بے بی پنک،بلیک،وائٹ اور ہلکے بلو اور ہرے کلرز پہنا سکتی ہیں۔ بچی اگر ذرا بڑی ہے تو آپ اسے ہر رنگ کے کپڑے پہنائیں،ساتھ ہی آپ دیکھتی رہیں کہ جیسے جیسے وہ بڑی ہو رہی ہیں تو ان پر کون کون سے رنگ جچ رہے ہیں،پھر اسی مناسبت سے ان کے لئے رنگوں کا انتخاب کیجیے۔ فیشن کا علم ایک حد تک ہونا بہت ضروری ہے۔کم از کم اتنا ضرور جاننا چاہیے کہ آپ کو دقیانوسی کا خطاب نہ ملے۔اچھے کپڑے پہننے کا شوق ہر گز بُرا نہیں ہے۔ ذاتی طور پہ فیشن کو نہ بھی اپنایا جائے تو مگر اس پہ نظر ضرور رکھی جائے۔ہر سال بڑھتے ہوئے ریٹ کی وجہ سے قدرے پریشانی ہوتی ہے۔لیکن اگرکپڑے کا معیار اچھا ہے،پرنٹ خوبصورت ہے ،رنگ دلکش ہیں تو پھر اس بات کی اہمیت باقی نہیں رہتی کہ سامنے کون سا برانڈ موجود ہے۔کم قیمت میں بھی اچھا کپڑا خریدنا ممکن ہو سکتا ہے۔سدا بہار کپڑوں کا دور ہمیشہ رہے گا اور اگر کالے رنگ والے عض کی رائے میں فیشن والے کپڑے پہننا بالکل ضروری نہیں۔ ان کے خیال میں تو ڈیزائنرز نے پوری کپڑا مارکیٹ ہائی جیک کرلی ہے۔ پہلے یہ سارے مسائل نہیں ہوتے تھے۔کپڑوں تک عام انسان کی رسائی آسان تھی۔ہم جتنے زیادہ انڈر ڈویلپڈ ہیں،غریب قوم ہیں،اتنی ہی تیزی سے ہمارے یہاں فیشن تبدیل ہوتے ہیں۔ ایک سیزن میں قمیض کی لمبائی گھٹنوں سے اوپر ہوتی ہے،اگلے سیزن میں قمیض، پیروں تک آرہی ہوتی ہے۔ایک سال کے فیشن میں پانجامہ اے لائن ہوتا ہے،چھ ماہ بعد ہی وہ فلیپر میں بدل جاتا ہے۔ فیشن کا اس تیزی سے بدلنا اور عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتے جانا کوئی صحت مند عمل نہیں ہے ۔“برانڈ کے باعث سفید پوش طبقے کو اچھا خاصا دھچکا لگا ہے۔ لباس وہ ہوتا ہے جس میں آپ آرام دہ محسوس کریں اور جو آپ پر جچتا ہو۔کچھ کے خیال میں آپ چاہیں یا نہ چاہیں،فیشن کہیں نہ کہیں آپ کو متاثر ضرور کرتا ہے۔ سوسائٹی کا پریشر فیشن کے ساتھ مل کر آپ پہ اثر انداز ہوتا ہے۔ مڈل کلاس کے لئے تو یہ مجبوری اور مرضی کے درمیان کا فیصلہ ہوتا ہے۔ “ سدا بہار یا ہمیشہ چلنے والے فیشن کے کپڑوں کے متعلق اب تو بچے بھی یہ کہنے لگے ہیں کہ فلاں سوٹ میں نے فلاں موقع یا فلاں تقریب پہ پہنا تھا،تو ایسا ہونا اب شاید ناممکن ہے کہ سدا بہار لباس کا دور واپس آجائے۔ ملازمت پیشہ خواتین اور لڑکیاں کہتی ہیں کہ فیشن سے اپ ڈیٹ رہنا بہت ضروری ہے۔ ان کے مطابق اگر آپ جاب کرتی ہیں تو ٹرینڈز کے ساتھ چلنا آپ کے لئے بہت ضروری ہوتا ہے۔کپڑے فیشن کے مطابق ہوں تو آپ کی شخصیت نکھر کے سامنے آتی ہے۔ان کا کہنا تھاکہ ہم زیادہ برانڈ کا نشس نہیں ہیں۔ بازار میں آپ کو ایک سے بڑھ کر ایک ورائٹی دستیاب ہے۔دوسرا درزی کو اپنا ڈیزائن سمجھا کر خود سے نت نئے کپڑے بنوانا ان کے خیال میں اب زیادہ بہتر آئیڈیا ہے۔آپ کو دنیا کے ساتھ تو بہر حال چلنا ہوتا ہے ورنہ آپ عجیب سے لگتے ہیں۔