رشتوں میں اعتدال – کامیاب شادی شدہ زندگی

جابر رضي الله تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے خطبۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:
( تم عورتوں کے بارے میں الله تعالی سے ڈرو ، بلاشبہ تم نے انہيں الله تعالی کی امان سے حاصل کیا ہے ، اور ان کی شرمگاہوں کو الله تعالی کے کلمہ سے حلال کیا ہے ، ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ جسے تم ناپسند کرتے ہو وہ تمہارے گھر میں داخل نہ ہو، اگر وہ ایسا کریں تو تم انہيں مار کی سزا دو جو زخمی نہ کرے اور شدید تکلیف دہ نہ ہو، اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہيں اچھے اور احسن انداز سے نان و نفقہ اور رہائش دو ) صحیح مسلممیں نے پوری ایمانداری سے حدیث شریف کوڈ کی ھے. عورت سے متعلق احکامات بالکل بھی حذف نہیں کیے. اگر حدیث شریف میں فرمایا گیا ھے کہ “انہیں مار کی سزا دو” تو ساتھ یہ بھی فرمایا گیا ھے کہ “ایسی مار ھو جو زخمی نہ کرے اور شدید تکلیف بھی نہ دے” یہ بھی بیوی کے حقوق میں سے ہے کہ خاوند اس کے لیے اپنی وسعت اور طاقت کے مطابق رہائش تیار کرے۔

۔۔ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے : تم اپنی طاقت کے مطابق جہاں تم رہتے ہو وہاں انہيں بھی رہائش پذیر کرو سورۃالطلاق (6) بیوی کا اپنے خاوند پر حق ہے۔ اگر اس کی اور بھی بیویاں ہوں تو وہ ان کے درمیان رات گزارنے، نان و نفقہ اور رہائش وغیرہ میں عدل و انصاف کرے۔ خاوند پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی سے اچھے اخلاق اور نرمی کا برتاؤ کرے، اور اپنی وسعت کے مطابق اسے وہ اشیاء پیش کرے جو اس کے لیے محبت و الفت کا با‏عث ہوں. نہ کہ بیوی کو اھمیت ہی نہ دے. بات بےبات انتہائی دل سوز رویّہ اختیار کرے. اپنے سخت رویّے اور برے اخلاق سے بیوی کی سخت دل شکنی کرے۔۔۔ اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : وَعَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْـرُوْفِ ۚ فَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَـعَسٰٓى اَنْ تَكْـرَهُوْا شَيْئًا وَّيَجْعَلَ اللّـٰهُ فِيْهِ خَيْـرًا كَثِيْـرًا (19) اور عورتوں کے ساتھ اچھی طرح سے زندگی بسر کرو، اگر وہ تمہیں نا پسند ہوں تو ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیز پسند نہ آئے مگر الله نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھی ہو۔ الله نے اس زاویے کے مطابق بھی فرما دیا جو کسی بھی مرد کے دل میں آ سکتا ھے۔ کہ اگر کسی وجہ سے بیوی میں آپ کو اگر ایک چیز ناپسند ھو تو بھی صبر سے کام لو ھو سکتا ھے الله نے اسی چیز میں تمھارے لیے بھلائی رکھی ھو۔۔۔ ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : ( عورتوں کے بارے میں میری نصیحت قبول کرو اور ان سے حسن معاشرت کا مظاہرہ کرو ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3153 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1468 )۔ لہذا جو مرد جوائنٹ فیملی نظام کے تحت والدین، والدہ، بہن، بھابھی یا بیوی کے درمیان ہر ایک کے رشتے و منصب کے اعتبار سے حقوق ادا نہیں کرے گا۔ وہ بروز قیامت جوابدہ ھو گا. جوائنٹ فیملی نظام میں عموماً بیوی سب سے زیادہ استحصال کی شکار ھوتی ھے۔۔۔ والدین کے احسانات تو انسان ساری زندگی نہیں چکا سکتا. بہنیں بھی بہت عزیز ھوتی ھیں، بہنوں کا پیار بھی بےلوث ھوتا ھے. لیکن یاد رکھیے بیوی سے متعلق بھی اسلام نے سخت تاکید فرمائی ھے. کہ بیوی کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ اور اس کے تمام جائز حقوق ادا کرو. بیوی کی دل آزاری مت کرو۔ ۔۔ وہ جو تمھارے لیے اپنے والدین، اپنا گھر، اپنے تمام رشتے ثانوی درجے پر چھوڑ کر صرف تمھارے لیے نکاح جیسی شریعت کی مقدس ڈور سے بندھ کر تمھارے گھر آ جاتی ھے. تو پھر اس نئے رشتے کا پاس رکھنا بھی تمھارا ہی فرض ھے. اس نئے بندھن کو محبت، احساس اور خوبصورت رویّے کے ساتھ مضبوط تر کرنا مرد ہی کی اوّلین ذمہ داری ھے۔ یاد رکھیے کامیاب انسان وہی ھوتا ھے جو محبتوں اور رشتوں میں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ مٹھاس پیدا کرتا ھے۔۔۔ ان تمام رشتوں میں اگر بیوی کا رشتہ خون کا رشتہ نہیں ھے تو اس کا غیر اھم یا آخری قدر پر مت رکھو بلکہ بیوی تمھاری دنیا کی بہترین ساتھی ھے جس کو الله نے تمھارے لیے منتخب کیا ھے۔ بیوی کے الگ سے بہت اھم حقوق ھیں۔ جبھی تو نبی کریم صلی الله عليه وسلم نے خطبہ حجة الوداع میں اپنی عورتوں سے اچھا برتاؤ کرنے کی تاکید فرمائی تھی۔۔۔ تمام رشتوں میں محبت اور عتدال کا معاملہ کر سکنے والا مرد ہی دراصل مرد کہلاتا ھے. جس مرد میں اتنی بھی اہلیت نہیں کہ ماں بہن بیوی اور بھابھی کی موجودگی میں چاروں رشتوں کو ان کے حقوق و منزلت کے مطابق عزت دے سکے وہ یقین کیجیے واقعی مرد کہلانے کے قابل نہیں ھے۔ ۔۔ لہذا بشمول میرے تمام مرد حضرات کو اس نکتے پر غور و خوض کرنی چاھیئے اور اپنے کردار و رویّے سے تمام رشتوں کے دل جیت سکنے والا بن کر رہنا چاھیئے اگر دل جینا ممکن نہ بھی ھو تو کم از کم کسی رشتے کی دل آزاری مت کرے، کیونکہ تمام ہی رشتے اھم اور اپنے اپنے دائرہ کار میں لازم ھیں۔۔۔