اسلام آباد(نیوز ڈیسک)سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی، جس میں عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ انہیں کرونا ہوگیا تھا، اس وجہ سے تحریری دلائل جمع نہیں کروا سکے، مہلت دی جائے۔چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے تحریری دلائل جمع کرانے کیلئے مہلت مانگ لی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تحریک انصاف کو کہا تھا اسمبلی جا کر اپنی ذمہ داری پوری کریں لیکن وہ بائیکاٹ کر کے بیٹھے ہوئے ہیں، اب اسمبلی میں موجود ارکان ذاتی فائدے کے لیے قانون سازی کررہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اکثر ترامیم میں ملزمان کو رعایتیں بھی دی گئی ہیں، ترامیم احتساب کے عمل سے مذاق ہوئیں تو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔چیف جسٹس نے واضح کردیا عدالت سیاسی معاملات میں مداخلت سے گریز کرے گی، صرف بنیادی حقوق کے خلاف ترامیم ہونے کے نکتے کا جائزہ لیں گے۔ہائی پروفائل کیسز کا ریکارڈ لے کر دیکھ رہے ہیں کہ کیسز چلتے ہیں یا نہیں، عدالت اس کیس میں بہت احتیاط سے کام لے گی۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے سیاسی موسم بدلتا رہتا ہے، عدالت کے اندر صرف آئین کا موسم برقرار رہنا چاہیے۔
سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت یکم ستمبر تک ملتوی کردی۔25 جون کو چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے نیب ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا، اور ان ترامیم کے خلاف ایک آئینی درخواست سپریم کورٹ میں داخل کی۔درخواست میں عدالت سے نیب قوانین میں ترامیم کو خلاف آئین قرار دیکر کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔عمران خان نے خود بطور درخواست گزار پٹیشن سپریم کورٹ کے روبرو جمع کروائی، درخواست آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت دائر کی گئی ہے جس میں وفاق پاکستان اور نیب کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔عمران خان نے درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ ترامیم کرنے والوں نے اپنی ذات کو بچانے کیلئے نیب قانون کا حلیہ ہی بدل دیا ہے، ان ترامیم کے بعد بیرون ملک سے آئے شواہد عدالت میں قابل قبول نہیں ہونگے۔