میں نے مگرمچھ کے جبڑوں میں پانی کی پلاسٹک بوتل پھنسا دی… ایسا کیا ہوا کہ ایرانی شہری خطرناک مگرمچھوں سے لڑنے پر مجبور ہوگئے

اپنے خستہ حال گھر کے فرش پر لیٹے ہوئے شیاہوک اپنے دائیں ہاتھ کے زخم کے باعث شدید تکلیف میں ہیں۔ یہ زخم ان کو ایک خوفناک حادثے کے نتیجے میں آیا ہے۔

اس حادثے سے صرف دو دن قبل اگست کی ایک چلچلاتی گرم دوپہر کو ستر سالہ چرواہا شیاہوک ایران کے بلوچستان علاقے میں ایک مقامی تلاب سے پانی بھرنے گئے تھے جب ان پر ایک مگرمچھ نے حملہ کر دیا۔دو برس قبل ہوئے اس خوفناک حادثے کی یادیں آج بھی ان کے ذہن میں نقش ہیں اور اب بھی اس حادثے کا صدمہ اور خوف لیے انھوں نے مجھے بتایا کہ ‘میں نے اسے آتے نہیں دیکھا۔’انھوں نے اپنے چہرے پر جھریاں بھرا بائیاں ہاتھ پھیرا۔ پھر اس حملے میں بچ جانے پر شکر کرتے ہوئے بتایا کہ ‘میں صرف اس لیے بچ پایا کیونکہ میں نے اس (مگرمچھ) کے جبڑوں میں پانی کی پلاسٹک بوتل پھنسا دی تھی۔’مگرمچھ کے حملے میں شیاہوک کے دائیں ہاتھ پر آئے زخموں کے باعث خون بہا اور وہ آدھے گھنٹے تک بے ہوش رہے۔

ان کی تلاش اس وقت ممکن ہوئی تھی جب ان کا بھیڑوں کا ریوڑ ان کے بغیر ان کے چھوٹے سے گاؤں دمباک واپس لوٹا۔ایک پُرخطر ماحول میں زندگیشیاہوک ایسے بہت سے واقعات کے بارے میں بتاتے ہیں جن میں مگرمچھوں نے یہاں کے باسیوں پر جان لیوا حملہ کیا۔ ان میں بہت سے بچے شامل ہیں اور اکثر اوقات ایرانی میڈیا ایسے واقعات پر محض جذباتی شہ سرخیاں لگاتا ہے جو جلد ہی منظر نامے سے غائب ہو جاتی ہیں۔سنہ 2016 میں علی رضا نامی نو سالہ بچے کو ایک ایسے ہی مگرمچھ نے نگل لیا تھا۔

جبکہ سنہ 2019 میں ایک اور مگرمچھ حملے میں ایک دس سالہ بچی کو اپنے دائیں ہاتھ سے محروم ہونا پڑا تھا۔وہ بچی تالاب سے کپڑے دھونے کے لیے پانی بھرنے گئی تھی جب مگرمچھ نے اس کو تقریباً دبوچ لیا تھا مگر اس کے ساتھیوں نے اسے اپنی جانب کھینچ کر اس کی جان بچائی تھی۔ان حملوں کی وجہ ایران میں پانی کی شدید قلت ہے اور اس کی وجہ سے مگرمچھوں کے لیے قدرتی طور پر سکڑتی خوراک ہے۔ اس خطے میں پانی کی کمی کے باعث مینڈک اور دیگر حیات کم ہو گئے ہیں اور مگرمچھوں کو اپنی خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔بھوکے مگرمچھ جب کسی انسان کو پانی کے حصول کے لیے اپنی جانب آتا دیکھتے ہیں تو یا وہ اسے اپنی بھوک مٹانے کے لیے شکار کے طور پر لیتے ہیں یا انھیں پانی میں اپنا دشمن سمجھ کر حملہ کرتے ہیں۔

ان مگرمچھوں کو مقامی زبان میں گنڈوز کہا جاتا ہے۔ یہ مگرمچھ کی ایک قسم ہے جو جسامت میں چوڑے ہوتے ہیں اور عالمی تحفظ قدرتی حیات نے انھیں ‘خطرناک’ قرار دیا ہے۔مگرمچھوں کی یہ قسم برصغیر ہند اور ایران کے مختلف علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایران میں ان کی کل تعداد 400 کے لگ بھگ ہے جو یہ اس نسل کی کل آبادی کا پانچ فیصد بنتا ہے۔ایران کے محکمہ ماحولیات کا کہنا ہے کہ وہ اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ایسے اقدامات کیے جا سکے جس سے مگرمچھوں کی اس نسل کو بھی تحفظ ملے اور یہاں رہنے والے مقامی افراد کو بھی محفوظ رکھا جا سکے۔

حالیہ برسوں میں بھوک و پیاس کی باعث ہونے والے ان حادثات کے باوجود بہت کم اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ ایران میں مگرمچھوں کی اس نسل کے اہم مسکن دریائے باہو کلات کے کنارے کے ساتھ سفر کرتے ہوئے آپ کو ان کی موجودگی اور خطرے کے متعلق انتباہی سائن بورڈ شاذ و نادر ہی نظر آتے ہیں۔حکومت کی جانب سے جامع حکمت عملی کی عدم موجودگی میں چند رضاکار ان مگرمچھوں کی بھوک و پیاس مٹاتے ہوئے ان کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔دمباک سے آتے ہوئے کچے راستے پر باہو قلات گاؤں، جس کا نام دریا کے نام کی مناسبت سے رکھا گیا ہے، میں میری ملاقات ملک دینار سے ہوئی جو برسوں سے ان مگرمچھوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ‘میں نے اپنے باغ کو ختم کر کے ان جانوروں کے لیے پانی کا تالاب بنایا ہے۔’ وہ اپنے اس باغ کا حوالہ دیتے ہیں جو کبھی آم، کیلے اور لیموں کے درختوں سے بھرا ہوتا تھا۔

اس کے قریب واقع دریا متعدد ایسے مگرمچھوں کا گھر ہے جہاں ملک دینار انھیں باقاعدگی سے مرغی کا گوشت ڈالتے ہیں کیونکہ سخت گرمی کے باعث یہاں مینڈکوں اور ان مگرمچھوں کی خوراک بننے والے قدرتی جانور ختم ہو گئے ہیں۔‘آؤ، ادھر آؤ’، ملک دینا متعدد بار آواز لگا کر ان مگرمچھوں کو اپنی جانب بلاتے ہیں اور مجھے اس دوران محفوظ فاصلہ رکھنے کی تاکید کرتے ہیں۔ان کی آواز لگانے کے بعد پلک جھپکتے ہی دو مگرمچھ نمودار ہوتے ہیں جو جانی پہچانی سفید ٹوکری میں سے مرغی کا گوشت ملنے کے منتظر دکھائی دیتے ہیں۔‘پانی کے بغیر کون زندہ رہ سکتا ہے؟’پانی کی شدید قلت ایران کے بلوچستان خطے کے لیے کوئی نئی نہیں ہے۔

جولائی میں جنوب مغربی علاقے خوزیستان میں شدید مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔ اور نومبر کے اواخر اسفہان میں پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں پولیس نے مظاہرین پر ہوائی فائرنگ کی تھی۔ یہ مظاہرین دریائے زیاندہ رود کے خشک کنارے پر جمع ہوئے تھے۔ماحولیاتی حدت نے پہلے ہی ایران میں اپنے بُرے اثرات ظاہر کر رکھے ہیں اور ماحولیاتی تبدیلی کے باعث ایران کے بلوچستان خطے میں دہائیوں سے پانی کی بدانتظامی نے اس کو تباہی کے دہانے پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔مٹی کے طوفان سے بچنے کے لیے شیر محمد بازار کی ایک دکان میں پناہ لینے کے دوران میں ایک عورت سے ملا جو کھلے آسمان تلے کپڑے دھو رہی تھی۔35

سالہ ملک ناز نامی اس خاتون نے مجھے بتایا کہ ‘یہاں پانی کی پائپ لائنیں تو ہیں لیکن ان میں پانی نہیں آتا۔’ ان کے شوہر عثمان نے نہانے سے متعلق میرے سوال پر مسکراتے ہوئے ہمسائے میں موجود ایک عورت کی جانب اشارہ کیا جو اپنے بیٹے کو نمکین پانی سے نہلا رہی تھی۔عثمان جن کے پانچ بچے ہیں اور ان کے کزن نوشیروان جو اس گفتگو میں شامل ہو گئے ہمسایہ ملک پاکستان غیر قانونی طور پر تیل پہنچا کر روزگار کماتے ہیں۔

اگرچہ نوشیروان نے واضح الفاظ میں یہ تسلیم کیا کہ ‘اس میں متعدد خطرات ہیں لیکن کیا کریں جب یہاں روزگار کا کوئی اور ذریعہ ہی نہیں ہے۔’نوشیروان کہتے ہیں کہ ‘ہم یہ توقع نہیں کرتے کہ حکومت ہماری کوئی مدد کرے یا ہم یہ بھی توقع نہیں کرتے کہ وہ ہمیں پلیٹ میں رکھ کر نوکریاں دیں۔‘‘ہم بلوچ یہاں صحرا میں روٹی کے ٹکروں پر گزارہ کر لیں گے مگر پانی زندگی ہے، ہم اس کے بغیر گزر نہیں کر سکتے اور کون پانی کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے؟‘